دھند کے درمیان معلق دنوں میں
خشک لمحے میرے اندر گرتے رہتے ہیں
اور دل کو بھر دیتے ہیں
میں قدم دھرنے سے ڈرتا ہوں
سوچتا ہوں
کہیں کچھ ٹوٹ نہ جائے
اور آرام کی خواہش مند ہوا
نیند سے جاگ نہ جائے
لمبی فراغتوں میں
آسمان کی خالی نیلاہٹوں کو
گرد سے بھرتے دیکھتا رہتا ہوں
ایک جیسے مناظر
فرار کی خواہش میں
چاروں طرف دیکھتے رہتے ہیں
چور راستے تلاش کرتے رہتے ہیں
شام ہونے سے پہلے ہی
سردی کے تیز ریزے
بدن میں اترنے لگتے ہیں
ہوا کی غیر موجودگی میں
بکھرے ہوئے خشک لمحوں کو
خود ہی جمع کرتا ہوں
ان سے آگ روشن کرتا ہوں
غیر محفوظ راتوں میں جاگنے کے لیے
زندہ رہنے کے لیے
نظم
ایک کیفیت
جاوید شاہین