عجب دن تھے
عجب نامہرباں دن تھے بہت نامہرباں دن تھے
زمانے مجھ سے کہتے تھے زمینیں مجھ سے کہتی تھیں
میں اک بے بس قبیلے کا بہت تنہا مسافر ہوں
وہ بے منزل مسافر ہوں جسے اک گھر نہیں ملتا
میں اس رستے کا راہی ہوں جسے رہبر نہیں ملتا
مگر کوئی مسلسل دل پہ اک دستک دیے جاتا تھا کہتا تھا مسافر!
اس قدر نا مطمئن رہنے سے کیا ہوگا
ملال ایسا بھی کیا جو ذہن کو ہر خواب سے محروم کر دے
جمال باغ آئندہ کے ہر امکان کو معدوم کر دے
گل فردا کو فصل رنگ میں مسموم کر دے
دلاسے کی اسی آواز سے ساری تھکن کم ہو گئی تھی اور
دل کو پھر قرار آنے لگا تھا
سفر زاد سفر شوق سفر پر اعتبار آنے لگا تھا
میں خوش قسمت تھا
کیسی ساعت خوش رنگ و خوش آثار میں مجھ کو
مرے بے بس بہت تنہا قبیلے کو نیا گھر مل گیا تھا
ایک رہبر مل گیا تھا
ایک منزل مل گئی تھی اور امکانوں بھرا خوابوں سے امیدوں سے روشن
ایک منظر مل گیا تھا
نظم
ایک کہانی بہت پرانی
افتخار عارف