میرے کمرے میں پھیلی ہے ایک کہانی
ابھی ذرا سی دیر ہوئی ہے
میں نے اک میلے کاغذ پر
حرفوں کے ٹکڑے جوڑے تھے
اور کہانی کو تھوڑی سی جگہ ملی تھی
پھر لفظوں کے تانے بانے بکھر گئے تھے
جن لفظوں سے آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے
بیت گیا ہے اتنا وقت
کہ اب تو یاد بھی کب آتا ہے
اپنے جسم کی قید میں ہیں ہم یا باہر ہیں
اتنا وقت کہ منظر سارے پگھل گئے ہیں
اوجھل ہیں تصویر کے رنگ میں یا ظاہر ہیں
اور کہانی کاغذ سے بہہ نکلی ہے
سارے کمرے میں پھیلی ہے
سب دروازوں اور دریچوں سے لپٹی ہے
ساری کتابیں اوندھی کر کے
ان سے وہ سب لفظ نکال کے لے آئی ہے
جو ہم نے اک ساتھ پڑھے تھے
میری الماری سے بند لفافے کھول کے
سارے خواب اٹھا لائی ہے
جو ہم نے اک ساتھ بنے تھے
اور زمیں سے چھت تک کیسے بے چینی سے بھٹک رہی ہے
تھک جاتی ہے اور مری آنکھوں سے بہنے لگ جاتی ہے
بستر کے نیچے چھپ کر آہیں بھرتی ہے
میرے کندھے پر سر رکھ کے سو جاتی ہے
اور کبھی کھڑکی کے پٹ پر ماتھا ٹیک کے کھو جاتی ہے
میرے کمرے میں پھیلی یہ ایک کہانی
گھات میں ہے اب
کوئی روزن در دروازہ کھل جائے تو
یہ اس حبس زدہ کمرے سے باہر نکلے
جیسے میرے دل کی ایک اک رگ کو چیر کے بہہ نکلی تھی
نظم
ایک کہانی
عنبرین صلاح الدین