پہاڑوں سے گھری وادی میں، پتھر سے بنی اک چار دیواری
اور اس دیوار کے اندر کئی کمرے
ہزاروں سال کی ویرانیاں اوڑھے کھڑے ہیں
انہی ویران کمروں میں سے اک کمرا
جہاں تین آدمی اک چارپائی پر
خود اپنے آپ سے باہر نکل کر اس طرح بیٹھے ہوئے ہیں
جیسے اپنے آپ میں تھے ہی نہیں
وہ تین ہیں
بس تین
اور چوتھا مجسمہ ہے
جو باہر ایستادہ ہے
ہر اک شے پر اندھیرے
اور اندھیرے پر سسکتی خامشی کا خوف طاری ہے
مگر وہ تینوں روشن ہیں
مکمل طور پر روشن
نہ ان پر خوف کا سایہ
نہ کوئی حزن کی پرچھائیں
وہ باتیں کر رہے ہیں
اور ہوا ساکت کھڑی ہے
گوش بر آواز
لیکن ان کی باتیں بے صدا ہیں
ناگہاں ان تین میں سے ایک کی نظریں ہوا کی سمت اٹھتی ہیں
تو وہ گھبرا کے پھر سے چلنے لگتی ہے
ہوا چلتے ہی ان کی گفتگو آواز میں تبدیل ہوتی ہے
اور اس کی تیز لہریں صحن کی جانب لپکتی ہیں
تو اک سایہ سا لہراتا ہے
سایہ دیکھ کر ان تین میں سے ایک
مارے خوف کے اپنے بدن کو اوڑھ لیتا ہے۔۔۔
دوسرے دن صبح جب خورشید کی کرنوں نے دروازے پہ دستک دی
تو کمرے میں وہ دو تھے
اور۔۔۔
باہر دو مجسمے
نظم
ایک کہانی
اختر رضا سلیمی