EN हिंदी
ایک اتفاقی موت کی روداد | شیح شیری
ek ittifaqi maut ki rudad

نظم

ایک اتفاقی موت کی روداد

محمد انور خالد

;

سراسر اتفاقی موت تھی
اس نے کہا تھا مجھ کو جانا ہے

سو وہ ایسے گیا جیسے زمیں سے گھاس جاتی ہے
سراسر اتفاقاً

پاؤں چلنے کے لیے ہوتے ہیں
اتنا تو سبھی تسلیم کرتے ہیں

تو ایسے میں اگر مٹی کی عریانی شکایت گر بھی ہو جائے
تو اس پر اور مٹی ڈال دیتے ہیں

سو ہم نے ڈال دی مٹی پہ مٹی
اتفاقاً

یہ تو ہوتا ہے
سراسر اتفاقی حادثہ تھا

اس نے خود لکھا تھا
دنیا بیچ آنا اتفاقی امر ہے

جانا سراسر حادثاتی
تو اس پر تو عدالت نے بھی کچھ حجت نہیں کی

اس نے خود لکھا تھا
حجت نفسیاتی عارضہ ہے

سو عدالت نے بلا تفتیش اسے جانے دیا
جیسے زمیں سے گھاس جاتی ہے

سراسر اتفاقاً
بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے

ہمیشہ اتفاقاً