جشن نوروز بھی ہے
جشن بہاراں بھی ہے
شب مہتاب بھی
جشن مہ تاباں بھی ہے
سنتے ہیں
آج ہی جشن شہ خوباں بھی ہے
آئیے اے دل برباد
چلیں ہم بھی وہاں
جشن کی رات ہے
سوغات تو بٹتی ہوگی
اپنے حصے کی
چلیں ہم بھی اٹھا لیں سوغات
درد کی
آخری سینے سے لگا لیں سوغات
اور پھر یوں ہو
کہ جب شام ڈھلے
اوس میں بھیگ کے
گل مہر کی خوشبو پھیلے
یاد کی چاندنی
بے خواب دریچوں پہ گرے
پھر اسی جشن کی
یہ رات مرے کام آئے
درد کی آخری سوغات
مرے کام آئے
آخر شب
شب آخر ٹھہرے
ضد پہ آیا ہوا یہ دل ٹھہرے
توڑ دوں شیشہ
جو ہستی کا بھی پھر جام آئے
کام آئے
تو یہ سوغات مرے کام آئے
جشن کی رات ہے
یوں نذر گزاری جائے
ایک اک آرزو صدقے میں اتاری جائے
نظم
ایک اک آرزو صدقہ میں اتاری جائے
نسیم سید