مری جاں گو تجھے دل سے بھلایا جا نہیں سکتا
مگر یہ بات میں اپنی زباں پر لا نہیں سکتا
میں تجھ کو چاہتا ہوں والہانہ پیار کرتا ہوں
میں گاتا رہتا ہوں پر یہ نغمہ گا نہیں سکتا
تجھے اپنا بنانا موجب راحت سمجھ کر بھی
تجھے اپنا بنا لوں یہ سمجھ میں آ نہیں سکتا
بنا سکتا ہوں شب کو اپنے بستر کی تجھے زینت
مگر دن میں ترے قصر حسیں تک جا نہیں سکتا
ہوا ہے بارہا احساس مجھ کو اس حقیقت کا
ترے نزدیک رہ کر بھی میں تجھ کو پا نہیں سکتا
مرے دست ہوس کی دسترس ہے جسم تک تیرے
میں تیری روح کی گہرائیوں تک جا نہیں سکتا
میں تیرے رس بھرے ہونٹوں کو پیاری چوم سکتا ہوں
مگر میں تیرے دل پر آہ قبضہ پا نہیں سکتا
ترے دل کی تمنا بھی کروں تو کس بھروسے پر
میں خود درگاہ میں تیرے یہ تحفہ لا نہیں سکتا
مری مجبوریوں کو بھی بہت کچھ دخل ہے اس میں
تجھی کو مورد الزام میں ٹھہرا نہیں سکتا
میں تجھ سے بڑھ کے اپنی آبرو کو پیار کرتا ہوں
میں اپنی عزت و ناموس کو ٹھکرا نہیں سکتا
ترے ماحول کی پستی کا طعنہ دوں تجھے کیوں کر
میں خود ماحول سے اپنے رہائی پا نہیں سکتا
نظم
ایک حسن فروش لڑکی کے نام
گوپال متل