سب وے میں نظر آئی مجھے ایک حسینہ
روسی نظر آتی تھی حقیقت میں تھی چینا
اندر کی فضا اور تھی باہر کی فضا اور
مادہ تھی مگر چال سے لگتی تھی نرینہ
بولی کہ مجھے لوگ پکارا کئے میری
ڈیڈی نے مرا نام تو رکھا تھا مرینہ
شلوار کو نیکر کیا بنیان کو رومال
میں راہ ترقی پہ چڑھی زینہ بہ زینہ
اب مجھ کو دوپٹے کی ضرورت ہی نہیں ہے
مغرب نے سکھایا مجھے جینے کا قرینہ
میں ایک ہی انداز کے کپڑوں میں ملوں گی
ہو جون کا سیزن کہ دسمبر کا مہینہ
دیسی تھی مگر روپ میں کالی کی طرح تھی
وہ گرم بہت چائے کی پیالی کی طرح تھی
پسٹل کی طرح آنکھ تو گولی کی طرح ہونٹ
اور ناک تو بندوق کی نالی کی طرح تھی
آئی تھی یہاں زلف گرہ گیر کٹا کر
مشرق کی ہوا باد شمالی کی طرح تھی
اس کا بھی نہ تھا میری طرح کوئی بھروسہ
بینگن کی طرح میں ہوں وہ تھالی کی طرح تھی
ہر عضو بدن مصرعۂ غالب کی طرح تھا
چہرے کی چمک مطلع حالی کی طرح تھی
نظم
ایک دیسی حسینہ سے ملاقات
خالد عرفان