اس نے اپنے دل کی کالی دھرتی پر ایک درخت اگایا تھا
پہلے اس پر امیدوں کے پھل آتے تھے
اس کی شاخیں خوشبوؤں کے پتوں سے بھر جاتی تھیں
یادوں کی خوشبوئیں فضا میں بکھر جاتی تھیں
کبھی کبھی راتوں کی مایوسی کی شبنم
سارے درخت کو دھو دیتی تھی
پھولوں میں نوکیلے کانٹے بو دیتی تھی
پھر بھی میں دنیا کی جلتی دھوپ سے گھبرا کر
اکثر اس کے سائے میں آ جاتا تھا
سکھ پاتا تھا
لیکن اب یہ درخت تو جیسے سنگ سفید کا ہے
اس کی شاخیں دودھیا دھات کی ہیں
اب اس پر ٹیڑھے میڑھے مخروطی اور مربع شکلوں والے
لوہے کے پھل آتے ہیں
اس کا سایہ گرم دہکتے انگاروں کی آگ ہے
اس کی خوشبو بہتے خون کا راگ ہے
میرے دل کی مٹی پر اب کوئی درخت نہیں ہے ناگ ہے
پھن پھیلا کر بیٹھا ہے اور اپنے جسم کو ڈستا ہے
جسم اب اس کا جسم نہیں ہے
پیلے خون کا رستہ ہے
نظم
ایک درخت
شہزاد احمد