EN हिंदी
ایک درخت کی دہشت | شیح شیری
ek daraKHt ki dahshat

نظم

ایک درخت کی دہشت

سعید الدین

;

میں کلھاڑے سے نہیں ڈرا
نہ کبھی آرے سے

میں تو خود کلھاڑے کے پھل اور آرے کے دستے سے جڑا ہوں
میں چاہتا ہوں

کوئی آنکھ میرے بدن میں اترے
میرے دل تک پہنچے

کوئی محتاط آری
کوئی مشاق ہاتھ مجھے تراش کر

ملاحوں کے لئے کشتیاں
اور مکتب کے بچوں کے لئے تختیاں بنائے

اس سے پہلے
کہ میری جڑیں بوڑھی داڑھ کی طرح ہلنے لگیں

یا میری خشک ٹہنیاں آپس میں رگڑ کھا کر جنگل کی آگ بن جائیں