EN हिंदी
ایک کینسر کے مریض کی بڑبڑ | شیح شیری
ek cancer ke mariz ki baD-baD

نظم

ایک کینسر کے مریض کی بڑبڑ

شارق کیفی

;

گلے پر لگا کر نشاں
جس گھڑی ڈاکٹر نے یہ مجھ سے کہا

اور تو سارے پرہیز ختم آپ کے آج سے
شیو مت کیجئے گا

جب تلک یہ گلے کی سکائی چلے
شیو مت کیجئے گا

تو ساری مشیت خدا کی سمجھ میں مرے آ گئی
ارے

مجھ کو داڑھی سے انکار کب تھا جو یہ رخ نکالا گیا
میں تو خود شیو کے نام سے

یوں بدکتا رہا آج تک جیسے پانی سے بلی
ہاں مری ساس کو کچھ ضرور اعتراضات تھے

جن کی عزت کی خاطر
میں داڑھی نہیں رکھ سکا

مگر ان کو بھی میں
اگر وقت ملتا تو سمجھا ہی لیتا

خیر
اب تو جو ہونا تھا ہو ہی گیا

یوں بھی کس کو بھلا کوئی موقع ملا ہے خدا کے حضور
بات رکھنے کی اپنی

تو یہ بات ہے
یعنی میں

شکل سے پکا سچا مسلماں نہ لگنے کے شک میں گیا