گلے پر لگا کر نشاں
جس گھڑی ڈاکٹر نے یہ مجھ سے کہا
اور تو سارے پرہیز ختم آپ کے آج سے
شیو مت کیجئے گا
جب تلک یہ گلے کی سکائی چلے
شیو مت کیجئے گا
تو ساری مشیت خدا کی سمجھ میں مرے آ گئی
ارے
مجھ کو داڑھی سے انکار کب تھا جو یہ رخ نکالا گیا
میں تو خود شیو کے نام سے
یوں بدکتا رہا آج تک جیسے پانی سے بلی
ہاں مری ساس کو کچھ ضرور اعتراضات تھے
جن کی عزت کی خاطر
میں داڑھی نہیں رکھ سکا
مگر ان کو بھی میں
اگر وقت ملتا تو سمجھا ہی لیتا
خیر
اب تو جو ہونا تھا ہو ہی گیا
یوں بھی کس کو بھلا کوئی موقع ملا ہے خدا کے حضور
بات رکھنے کی اپنی
تو یہ بات ہے
یعنی میں
شکل سے پکا سچا مسلماں نہ لگنے کے شک میں گیا
نظم
ایک کینسر کے مریض کی بڑبڑ
شارق کیفی