عزیزو!
اگر رات رستے میں آئے
اگر دانہ و دام کا سحر جاگے
اگر اڑتے اڑتے کسی روز تم آشیاں بھول جاؤ
تو پچھلی کہانی میں موجود جگنو سے دھوکا نہ کھانا
کہانی، نہیں دیکھتی غم کے نم کو
کہانی نہیں جانتی کیف و کم کو
کہانی کو وہم و گماں کی کٹھن راہ سے کون روکے
کہانی کا پیرایہ خواہش کا قیدی نہیں
پیرہن کوئی بدلے تو بدلے،
کہانی بدلتی نہیں ہے
عزیزو!
اگر رات آئے تو رستے میں پڑتی
مری جھونپڑی کا دیا دیکھ لینا
میں خود اڑے اڑتے یہیں پر گرا تھا

نظم
ایک بزرگ شاعر پرندے کا تجربہ
تابش کمال