آج سے پہلے میرا گھر
سویا سویا رہتا تھا
سورج روز نکلتا تھا
روز سویرا ہوتا تھا
آنگن میں دیواروں پر
دھوپ چمکتی رہتی تھی
گھر کی اک اک کھڑکی میں
نور کی ندی بہتی تھی
سارا سارا دن چھت پر
کاگے شور مچاتے تھے
نل نیچے پانی پینے
روز کبوتر آتے تھے
دروازے پر دستک کی
مہریں چمکا کرتی تھیں
سرد ہوائیں پردوں میں
ٹھنڈی آہیں بھرتی ہیں
ادھر ادھر جاتی گلیاں
دھوم مچایا کرتی تھیں
ان جانے جانے بوجھے
گیت سنایا کرتی تھیں
لیکن پھر بھی میرا گھر
سویا سویا رہتا تھا!
گھر کا اک اک دروازہ
کھویا کھویا رہتا تھا!
آج مگر اک نو وارد
بچے کا رونا سن کر
چونک پڑے دیوار و در
جاگ اٹھا ہے میرا گھر
نظم
ایک بچہ
محمد علوی