ایک بار پھر
فقیروں کا بھیس لیے
میرے در پر
عیار آ کھڑے ہوئے ہیں
یہ وہی تو ہیں
جو ایک بار پہلے
مجھ سے میرا نقش لے کر
ہاتھوں میں تھما گئے تھے
جنت کا ایک حسین ٹکڑا
جو ان کے جاتے ہی
دوزخ بن گیا تھا
چند سال بعد
وہ مجھ سے ایک اور نقش لے کر
اس کے بدلے
دے گئے تھے ایک سمندر
جو اس دوزخ کو بجھا سکتا تھا
لیکن ان کے چلے جانے کے بعد
وہ سمندر
طوفان نوح بن گیا
اور آج پھر
وہ میرے در پر کھڑے ہیں
کاندھوں پر لیے ہوئے ایک کشتی
اور نقش ہاتھ میں لیے
میں سوچ رہا ہوں
کیا یہ کشتی
مجھے طوفان سے نکال سکے گی؟

نظم
ایک بار پھر
صادق