EN हिंदी
ایک بار کہو تم میری ہو | شیح شیری
ek bar kaho tum meri ho

نظم

ایک بار کہو تم میری ہو

ابن انشا

;

ہم گھوم چکے بستی بن میں
اک آس کی پھانس لیے من میں

کوئی ساجن ہو کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو

جب جیون رات اندھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں

جب چندا روپ لٹاتا ہو
جب سورج دھوپ نہاتا ہو

یا شام نے بستی گھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل میلا ہے

ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
تم کب تک دور جھروکے میں

کب دید سے دل کو سیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

کیا جھگڑا سود خسارے کا
یہ کاج نہیں بنجارے کا

سب سونا روپا لے جائے
سب دنیا، دنیا لے جائے

تم ایک مجھے بہتیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو