EN हिंदी
ایک عورت کی ہنسی | شیح شیری
ek aurat ki hansi

نظم

ایک عورت کی ہنسی

فہمیدہ ریاض

;

پتھریلے کہسار کے گاتے چشموں میں
گونج رہی ہے ایک عورت کی نرم ہنسی

دولت طاقت اور شہرت سب کچھ بھی نہیں
اس کے بدن میں چھپی ہے اس کی آزادی

دنیا کے معبد کے نئے بت کچھ کر لیں
سن نہیں سکتے اس کی لذت کی سسکی

اس بازار میں گو ہر مال بکاؤ ہے
کوئی خرید کے لائے ذرا تسکین اس کی

اک سرشاری جس سے وہ ہی واقف ہے
چاہے بھی تو اس کو بیچ نہیں سکتی

وادی کی آوارہ ہواؤ آ جاؤ
آؤ اور اس کے چہرے پر بوسے دو

اپنے لمبے لمبے بال اڑاتی جائے
ہوا کی بیٹی ساتھ ہوا کے گاتی جائے