بات صرف اتنی تھی
ہم اپنے فرسودہ جذبوں کے کاٹھ کباڑ کو بھی
اجلے لفظوں کے شو کیسوں میں سجا کر ہم کلامی کرتے تھے
جانے کتنے جسموں کے وصال سے ہوتے ہوئے
ایک دوسرے کے قریب پہنچے تھے ہم...!
ہماری دھلی دھلائی جھولیوں میں جگالی کیے ہوئے
بوسوں کی سڑاند تھی
ہمارے لمس خدا کو چھونے کی خواہش میں میلے ہو رہے تھے
ہتھیلیوں کی چنگیر میں پڑے باسی دعاؤں کے نوالے
ہم سے نگلے نہ جاتے تھے
لہو تھوکتی ہوئی محبت ہم سے بچھڑ رہی تھی
اور ہم منہ پھیر کر اسے رخصت کے دو آنسوؤں کا نمک
تک نہ دے پا رہے تھے
رشتہ، سچا اظہار مانگتا تھا
اور ہمارے پاس اپنی رفاقتوں کی تعزیت کے لیے بھی
دو لفظوں کی توفیق نہ تھی
بات صرف اتنی تھی کہ...
ہماری روحیں ایک دوسرے سے معاونت نہیں کر پائیں تھیں
یا پھر شاید...
ہمارے پاس ایک اور محبت کی گنجائش ہی نہیں تھی!
نظم
ایک اور محبت....
انجم سلیمی