بظاہر یہ لگتا ہے
اس ملگجی صبح کو سب سہاروں نے جیسے
اچانک ترا ساتھ چھوڑا
سحر نے زمیں پر قدم جب رکھا
تو اچانک زمیں بے وفا ہو گئی
ابھرتا ہوا آفتاب
ایک ہی ناگہاں لغزش پا سے یوں لڑکھڑایا
کہ مغرب کے پاتال میں منہ کے بل جا سمایا
اچانک فرشتے کفن سائباں کی طرح تان کر
آسمانوں سے اترے
گلوں کی مہک کی جگہ دفعتاً بوئے کافور کی سرد مہری نے لے لی
شجر کے بدن سے نئی کونپلوں کی بجائے خزاں پھوٹ نکلی
بظاہر یہ لگتا ہے
لیکن بھلا حادثہ ایک دم کب ہوا ہے
بہت دن سے اس سر بمہر آتشیں راز کا گنگ فیتہ
خموشی سے جلتا چلا جا رہا تھا
فنا کے گرجتے ہوئے آبشاروں کے اوپر تنا
رسیوں کا یہ پل
ایک مدت سے گلتا جا رہا تھا
نظم
ایک اچانک موت کا نوحہ
خورشید رضوی