ابھی ابھی ہی تو سپنے میں یوں لگا مجھ کو
بلا رہی ہے کوئی ان سنی صدا مجھ کو
مٹھاس اوڑھ کے دھیمی سی گنگناہٹ کی
نہ جانے زیر لب آواز کہہ گئی ہے کیا
ہنوز گوش بر آواز ہے دل حیراں
کسی کی بات ادھوری ہی رہ گئی ہے کیا
جھڑی تھی نیند کی ٹہنی سے جو صدا کی کلی
خود آگہی کے تموج میں بہہ گئی ہے کیا
عجب نہیں کہ تصور سے کوئی پرچھائیں
نکل کے اندھی گپھاؤں کی سمت لپکی ہو
عجب نہیں کہ نم آلود شب کی چوکھٹ پر
سمے کی موج تنفس نے آنکھ جھپکی ہو
عجب نہیں کہ سلگتے سکوت کی رو میں
کہیں سے نرم سی آہٹ کی بوند ٹپکی ہو
عجب نہیں کہ کسی ادھ کھلے شگوفے نے
ہوا کے اونگھتے جھونکے کی پیٹھ تھپکی ہو
نقوش پا میں کسی خوش خرام نے شاید
صدائے پا کا رسیلا سا عکس چھوڑا ہو
فلک سے ٹوٹ کے شاید کسی ستارے نے
سکوت شب کے حسیں آئنہ کو توڑا ہو
طلسم یاد نے شاید ترستے کانوں میں
کسی کی سیم گوں سانسوں کا رس نچوڑا ہو
عجب نہیں کہ مرے ذہن کے کواڑوں سے
کسی بھٹکتی صدا نے سر اپنا چھوڑا ہو
رہی صدائے پر اسرار سی نہ خواب رہا
رہا یہ آخر شب شب کا ماہتاب رہا
نظم
ایک آواز
تخت سنگھ