وہ ایک عام سی لڑکی ہے دیکھ کر جس کو
نہ جانے کیوں مجھے ایسا خیال آتا ہے
کہ اس کے ہنسنے کا انداز یہ بتاتا ہے
ہوئی نہیں ہے غم دل سے رسم و راہ ابھی
پڑی نہیں ہے کوئی چوٹ ابھی رگ جاں پر
کسی نگاہ سے الجھی نہیں نگاہ ابھی
وہ ایک عام سی لڑکی اک ایسا جذبہ ہے
ملی نہیں جسے الفاظ میں پناہ ابھی
وہ ایک عام سی لڑکی ہے جیسے چھائی ہوئی
مرے جوان خیالوں پہ بے خودی کی طرح
خیال آتا ہے اک پھول بننے والی ہے
وہ کمسنی جو ہے منہ بند سی کلی کی طرح
جو رنگ بن کے ہے محبوس اس کے پیکر میں
وہ بوئے حسن تو پھیلے گی روشنی کی طرح
وہ ایک عام سی لڑکی ہے جس کے سادہ نقوش
چمک اٹھیں گے محبت کی سرد آہوں سے
جہاں پہ پھول تو کیا دل بجھے ہوئے ہوں گے
گزرنے والی ہے وہ ان حسین راہوں سے
ابھی تو خیر سے معصومیت ٹپکتی ہے
مگر شراب بھی ٹپکے گی ان نگاہوں سے
وہ ایک عام سی لڑکی ہے جس کے بارے میں
نہ جانے ذہن میں آتے ہیں کیوں خیال کئی
مگر بڑے ہی تحیر سے آج صبح کے وقت
سنی ہے میں نے محلے میں ایک بات نئی
گزشتہ شب کو وہی ایک عام سی لڑکی
خود اپنے گھر کے ملازم کے ساتھ بھاگ گئی
نظم
ایک عام سی لڑکی
نریش کمار شاد