رات پلیٹ میں دکھ رکھا تھا
صبح کے کپ میں بے زاری تھی
شام چائے کے ساتھ پڑا تھا
دل کی صورت والا برفی کا اک ٹکڑا
آج مرے کمرے میں پھر سے ہجر کی ٹیبل پر
دل کا پیالہ یوں اشکوں سے بھرا ہوا تھا
اندر سے کچھ ٹوٹ گیا تھا
اور اک جگ یادوں سے بھرا میری جانب دیکھ رہا تھا
ایک گلاس تھکن کا خالی
جیسے در سے کوئی سوالی
بن پائے ہی لوٹ گیا تھا
نیند کے تکیے پر سر رکھا
میرے سرہانے کتاب تمہاری
میرا جیون دم سادھے چپ چاپ پڑا تھا
میں نے جوں ہی ہاتھ بڑھایا
لفظوں سے اک چہرہ ابھرا
رات بہت ہی بیت چکی ہے
اب سو جاؤ
نظم
احساس
الماس شبی