EN हिंदी
لہو میں اترتا ہوا موسم | شیح شیری
lahu mein utarta hua mausam

نظم

لہو میں اترتا ہوا موسم

مشتاق علی شاھد

;

ہواؤں کی برفاب سی انگلیاں
کہہ رہی ہیں

کہیں پاس ہی
موسلا دھار بارش ہوئی ہے

پہاڑوں کی دامن میں شاید
گئی رات کو برف گرتی رہی ہے

لہو میں اترتا ہوا
دوسرا ایک لمحہ

کہیں کچھ نہیں
کچھ بھی بدلا نہیں ہے

نہ موسم نہ گرمی ہوا کی
فقط میرے احساس کی یخ بستگی

چپکے چپکے
میرے خون کو منجمد کر رہی ہے

میرے جسم میں
کپکپی بھر رہی ہے