پانی عورت اور غلاظت
اکثر خوابوں میں آتے ہیں
مجھ کو پریشاں کر جاتے ہیں
عورت ایک ہیولیٰ صورت
کبھی اجنتا کی وہ مورت
کبھی کبھی جاپانی گڑیا
کبھی وہ اک ساگر شہزادی
آب رواں کے دوش پہ لیٹی
موجوں کے ہلکورے کھاتی
سانپ کی آنکھوں میں انگارا
اس کی ہر پھنکار میں وحشت
اپنے ہر انداز میں دہشت
کبھی وہ مجھ پر حملے کرتا
کبھی میں اس کے سر کو کچلتا
دھان کے کھیت میں ٹھہرا پانی
دریاؤں میں بہتا پانی
لہراتا بل کھاتا پانی
طغیانی میں بھنور بناتا
سیلابوں میں شور مچاتا
غضب میں پھیلتا بڑھتا پانی
کوڑوں کے ڈھیروں کے جیسا
اونچے نیچے ٹیلوں جیسا
میلوں کے رقبے میں پھیلا
دیکھتا ہوں انسانی فضلہ
کبھی تو میں پاتا ہوں خود کو
اپنی غلاظت میں ہی لتھڑا
کبھی میں اپنے ہاتھوں سے ہی
گھر سے باہر پھینکتا دیکھوں
اپنے گھر والوں کا فضلہ
کبھی کموڈ میں تیرتا دیکھوں
کبھی تو میز پہ کھانے کی ہی
کبھی کسی دوجے کمرے میں
اکثر اپنے کمرے میں بھی
اپنے بستر پر ہی دیکھوں
یا پھر
دور خلاؤں کے آنگن سے
اپنے گھر میں گھستا دیکھوں
خوابوں کا اسرار ہے کیسا
خوابوں کی لذت ہے کیسی
جن میں جکڑا
سوچتا ہوں میں
واقعی یہ سب خواب ہیں یاور
خواب نما کوئی بیداری
یا بے منزل رستہ کوئی
یا پھر ایک طلسم ہے کوئی
اک دن پھر ایسا ہوتا ہے
سانپ عورت کو ڈس لیتا ہے
پانی میں غلاظت مل جاتی ہے
اب بس سانپ ہے اور غلاظت
پر یہ شاید خواب نہیں
نظم
خواب حقیقت
یاور امان