وہ دن جو گزرے ہیں بھولی بسری حکایتیں ہیں
کہ دوستوں سے نہ کوئی شکوہ نہ دشمنوں سے شکایتیں ہیں
کچھ ایسا لگتا ہے جیسے اب تک میں ریل میں تھا
برا بھلا جو تھا آنے جانے کے کھیل میں تھا
شجر شجر تھیں حقارتیں بھی محبتیں بھی
شعور غم کے مظاہرے بھی مسرتیں بھی
جو مسکرائے تھے ان کے حالات مختلف تھے
جو غم اٹھائے تھے ان کی رات مختلف تھی
جو ساتھ چلتے تھے ان کی مجبوریاں بہت تھیں
کچھ اتنے مجبور تھے کہ اپنوں سے دور تھے دوریاں بہت تھیں
یہ جتنا جو کچھ ہے جیسا کچھ ہے کچھ اتنا دلچسپ ہے کہ اک دن
میں اس طرف آؤں گا دوبارہ
اگر مری بات میں ہوا تو میں خود کو دہراؤں گا دوبارہ

نظم
اعادۂ حکایتیں
بمل کرشن اشک