ایسے لگتا ہے کہ صحرا ہے کوئی
دور تک پھیلی ہوئی ریت کو جب دیکھتا ہوں
میری آنکھوں میں وہی پیاس چھلک آتی ہے
روح کی پیاس چھلک آتی ہے
پھر ہوا وقت کے ہاتھوں میں ہے تلوار کی مانند رواں
پھر سلگتا ہوں فقط موت مجھے بھاتی ہے
دل مرا آج بھی افسردہ اداس
دل بدلتا ہی نہیں
راستے روز بدل لیتے ہیں روپ
راستے فیض کی شاہراہ کی طرح چور نڈھال
اور پت جھڑ میں بکھرتے ہوئے پتوں کی طرح
لوگ ہی لوگ ہیں جس اور نظر جاتی ہے
روگ ہی روگ ہیں جس اور نظر جاتی ہے
پھر بھٹکتا ہوں فقط موت مجھے بھاتی ہے
گرچہ یہ خوف کہ دیوانہ کہے گی دنیا
گرچہ یہ ڈر کہ میں سچ مچ ہی نہ پاگل ہو جاؤں
پھر بھی غم کھانے کی فرصت تو نکل آتی ہے
اپنے گن گانے کی عادت ہی نہیں جاتی ہے
دور جاتے ہوئے لمحوں کی صدا
گالیاں مجھ کو دیے جاتی ہے
اس سے پہلے بھی جنوں تھا لیکن
اب کے اس طور سے بکھرے ہیں حواس
کوئی ترتیب نہیں
ایسے لگتا ہے کہ صحرا ہے کوئی
دور تک پھیلی ہوئی ریت کو جب دیکھتا ہوں
میری آنکھوں میں وہی پیاس چھلک آتی ہے
روح کی پیاس چھلک آتی ہے
زندگی میری دھوئیں کی صورت
پھیلتی اور بکھر جاتی ہے
پھر ہوا وقت کے ہاتھوں میں ہے تلوار کی مانند رواں
پھر میں مرتا ہوں فقط موت مجھے بھاتی ہے
نظم
فقط موت مجھے بھاتی ہے
زاہد ڈار