جل بجھے آنکھوں میں خوابوں کے مہکتے پیکر
اب کہیں کوئی شرارہ ہے نہ شعلہ نہ دھواں
کھو گئے وقت کی پتھریلی گزر گاہوں پر
چند بے نام تمناؤں کے قدموں کے نشاں
ایک پرچھائیں ہوں جس میں نہ کوئی رنگ نہ روپ
صرف احساس ہو تم جس کا کوئی نام نہیں
میں بھی پابستہ ہوں حالات کی زنجیروں میں
تم پہ بھی عہد فراموشی کا الزام نہیں
میرے احساس پہ بھی برف جمی ہے جیسے
آنچ دیتا نہیں جذبات کو کوئی موسم
دھڑکنیں آج تمہاری بھی ہیں بے لفظ و بیاں
اب برستی نہیں دل دار نظر سے شبنم
میں بھی کچھ صورت حالات سے برگشتہ ہوں
تم بھی ہو اپنے خیالات پہ پچھتائی ہوئی
میں نے بھی جان لیا ہے کہ حقیقت کیا ہے
تم بھی خوابوں سے نظر آتی ہو اکتائی ہوئی
جب نہ میں میں ہوں نہ تم تم ہو تو پھر آنکھوں میں
یہ گرانبارئی احساس شناسائی کیوں
بار ہو جاں پہ تو پیمان رفاقت کیسا
بوجھ ہوں دل پہ تو جذبوں کی پذیرائی کیوں
مجھ کو یوں پیار کی رسوائیاں منظور نہیں
تم بھی اس رشتے پہ الزام نہ آنے دینا
میری سانسوں میں نہ مہکے گی تمہاری خوشبو
تم بھی ہونٹوں پہ مرا نام نہ آنے دینا
نظم
اعتراف
شاہد اختر