EN हिंदी
اعتراف | شیح شیری
etiraf

نظم

اعتراف

نریش کمار شاد

;

میں نے خوابوں کے سمن رنگ شبستانوں میں
لوریاں دے کے غم دل کو سلانا چاہا

تلخی زیست سے بے زار و پریشاں ہو کر
تلخی زیست کا احساس مٹانا چاہا

اور میں ڈرتے جھجکتے کسی مجرم کی طرح
آ گیا تیری محبت کے پرستانوں میں

چھوڑ کر اپنے تعاقب میں نگاہیں اپنی
کھو گیا کاکل و رخسار کے افسانوں میں

میں نے سوچا تھا ترے جسم کی رعنائی سے
سنگ دل ذہن کی تقدیر بدل جائے گی

زندگی وقت کے صحرا کی المناک سموم
تیرے انفاس کی مہکار میں ڈھل جائے گی

آہ اک لمحہ بھی لیکن مرے سینے کی تڑپ
تیرے گاتے ہوئے ماحول کو اپنا نہ سکی

تیری زلفوں کے گھنے اور خنک سائے میں
میرے جلتے ہوئے ادراک کو نیند آ نہ سکی

تیری ہنستی ہوئی لبریز چھلکتی آنکھیں
میری آنکھوں میں کبھی رنگ طرب بھر نہ سکیں

تیرے دامن کی ہوائیں تھیں جنوں خیز مگر
میرے احساس کی قندیل کو گل کر نہ سکیں

میں نے سوچا تھا مگر کتنا غلط سوچا تھا
زندگی ایک حقیقت تھی فسانہ تو نہ تھی

میری دنیا مرے خوابوں کی سنہری دنیا
نوحۂ غم تھی مسرت کا ترانہ تو نہ تھی

اب یہ سمجھا ہوں کہ اس درد بھری دنیا میں
میرے آغاز کا انجام یہی ہونا تھا

خواب پھر خواب تھے خوابوں کا بھروسہ کیا تھا
حاصل کاہش ناکام یہی ہونا تھا

ذہن پر لاکھ فسوں کار تخیل ہوں محیط
لاکھ پردوں میں نگاہوں کو چھپایا جائے

تلخی زیست کا احساس نہیں مٹ سکتا
تلخی زیست کو جب تک نہ مٹایا جائے