EN हिंदी
اعتراف | شیح شیری
etiraf

نظم

اعتراف

خالد احمد

;

بات کہنا نہیں آتی مجھے لکھنا نہیں آتا
سطر کہنے کا ہنر نظم بنانے کا سلیقہ

بات کرنے کا قرینہ مجھے کچھ بھی نہیں آتا
کوئی صورت فن عرض ہنر آ جائے مجھے بھی

شام کو شام کہوں اور نگاہوں پہ اندھیرے اتر آئیں
صبح کو صبح لکھوں اور پس‌ سطر تپاں دھوپ بھرا دن نکل آئے

کل بھی تاثیر تہی تھا مرا دامان سخن آج بھی تاثیر تہی ہے
میرا دامان دعا سر دربار عطا آج بھی فیضان طلب ہے

میرے مولیٰ تیرا بندہ ترے اکرام کے لائق نہیں لیکن
میرا بچپن ترے انعام کا شائق ہے ابھی تک

کیا کہوں کوئی بھی شے اصل پہ قائم نہیں رہتی
بات پیرائے کے صحرا میں نکل جائے تو گھر لوٹ نہ پائے

استعارے کی زباں چاٹنے آ جائے مرے عجز کی شوخی مرے جذبوں کی حرارت مرے لفظوں کی بصارت
ہر کنایہ مرے تپتے ہوئے جذبات تپاں راکھ کی جھلی کی طرح اوٹ میں لے لے

صاف شفاف تپاں راکھ کی چادر
ہولے ہولے مرے جذبات کے سر تک سرک آئے

میرے مولا مرا فن بھی مری بے جان محبت کی طرح نم سے تہی ہے
پھر بھی اے مالک عزت

جانے کیوں میرے گل اندام مربی مجھے چھونے پہ رضامند نہیں ہیں
جانے کیوں میرے گل اندام کو ڈر ہے

راکھ کے ڈھیر میں شاید کوئی جذبہ ابھی زندہ ہو اور اس دست
حنا رنگ کی پوریں نہ جھلس دے

لفظ بھوبھل کی تہیں ہیں
آتش جذب کہیں سرو فلک بوس کا دامن نہ جلا دے

میرے مولا مجھے کچھ بھی نہیں آتا
بات کرنے کا ہنر شعر سنانے کا سلیقہ

میرے وارث مرا سینہ ترا گھر ہے
میرے محسن ترا گھر باب کشا ہے

کوئی آئے مرا دل باب‌ کشا ہے
لفظ بھوبھل کی تہیں ہیں

سچ تو یہ ہے مری بھوبھل مری بے جان محبت کی طرح غم سے تہی ہے