EN हिंदी
اعتماد | شیح شیری
etimad

نظم

اعتماد

کفیل آزر امروہوی

;

میں نے سوچا تھا کہ اس بار تمہاری باہیں
میری گردن میں بصد شوق حمائل ہوں گی

مشکلیں راہ محبت میں نہ حائل ہوں گی
میں نے سوچا تھا کہ اس بار نگاہوں کے سلام

آئیں گے اور بہ انداز دگر آئیں گے
پھول ہی پھول فضاؤں میں بکھر جائیں گے

میں نے سوچا تھا کہ اس بار تمہاری سانسیں
میری بہکی ہوئی سانسوں سے لپٹ جائیں گی

بزم احساس کی تاریکیاں چھٹ جائیں گی
میں نے سوچا تھا کہ اس بار تمہارا پیکر

میرے بے خواب دریچوں کو سلا جائے گا
میرے کمرے کو سلیقے سے سجا جائے گا

میں نے سوچا تھا کہ اس بار مرے آنگن میں
رنگ بکھریں گے امیدوں کی دھنک ٹوٹے گی

میری تنہائی کے عارض پہ شفق پھوٹے گی
میں نے سوچا تھا کہ اس بار بایں صورت حال

میرے دروازے پہ شہنائیاں سب دیکھیں گے
جو کبھی پہلے نہیں دیکھا تھا اب دیکھیں گے

میں نے سوچا تھا کہ اس بار محبت کے لیے
گنگناتے ہوئے جذبوں کی برات آئے گی

مدتوں بعد تمناؤں کی رات آئے گی
تم مرے عشق کی تقدیر بنو گی اس بار

جیت جائے گا مرا جوش جنوں سوچا تھا
اور اب سوچ رہا ہوں کہ یہ کیوں سوچا تھا