EN हिंदी
اعجاز تصور | شیح شیری
eajaz-e-tasawwur

نظم

اعجاز تصور

تصدق حسین خالد

;

راہ دیکھی نہیں اور دور ہے منزل میری
کوئی ساقی نہیں میں ہوں مری تنہائی ہے

دیکھنی ہے مجھے حیرانی سے تاروں کی نگاہ
دور ان سے بھی کہیں دور مجھے جانا ہے

اس بلندی پہ اڑے جاتا ہے تو سن میرا
کہکشاں گرد سی دیتی ہے دکھائی مجھ کو

رفعت گوش سے سنتا ہوا مبہم سا شرار
میری منزل ہے کہا یہ کبھی سوچا ہی نہیں

اس کی فرصت ہی کسے دل میں مگر رہتا ہے
درد وہ درد کہ ہے جس سے کمنا بیتا

جانے کچھ راہ مرے ساتھ ہوا تھا لیکن
رہ گیا دور کہیں ہار کے ہمت اپنی

زہرہ کہنے لگی اے بزم فلک کے قاصد
زرد رو پہلی ہی منزل میں ہوا تو کیوں کر

جب کہ وہ خاکئی بے مایہ بڑھے جاتا ہے
پست ہر ایک بلندی کو کٹے جاتا ہے

بھڑکے اک آہ کہا چاند نے یوں زہرہ سے
اے نگار رخ زیبائے بہار افلاک

میں بھی حیران ہوں اس ہمت عالی پہ کہیں
حسن سلمیٰ کے تصور کا یہ اعجازؔ نہ ہو

یہ جواں حوصلگی پردہ در راز نہ ہو