کل شب عجیب ادا سے تھا اک حسن مہرباں
وہ شبنمی گلاب سی رنگت دھلی دھلی
شانوں پہ بے قرار وہ زلفیں کھلی کھلی
ہر خط جسم پیرہن چست سے عیاں
ٹھہرے بھی گر نگاہ تو ٹھہرے کہاں کہاں
ہر زاویے میں حسن کا اک تازہ بانکپن
ہر دائرے میں کھلتے ہوئے پھول کی پھبن
آنکھوں میں ڈولتے ہوئے نشے کی کیفیت
روئے حسیں پہ ایک شکستہ سی تمکنت
ہونٹوں پہ ان کہی سی تمنا کی لرزشیں
بانہوں میں لمحہ لمحہ سمٹنے کی کاوشیں
سینے کے جزر و مد میں سمندر سا اضطراب
امڈا ہوا سا جذبۂ بیدار کا عذاب
خوشبو طواف قامت زیبا کیے ہوئے
شیشہ بدن کا عزم زلیخا لیے ہوئے
پھر یوں ہوا کہ چھڑ گئی یوسف کی داستاں
پھر میں تھا اور پاکئ دامن کا امتحاں
اک سانپ بھی تھا آدم و حوا کے درمیاں
نظم
دوسرا تجربہ
حمایت علی شاعرؔ