یہ دوسرا پہاڑ تھا
جہاں چیزوں میں میری عمر کے کچھ حصے پڑے تھے
میں یہاں سے کتنی بے ترتیب گئی تھی
اور میں اپنا دن گرد کر کے آ رہی تھی
ساری چیزوں نے مجھے گلے لگایا
میں نے چھوٹے جوتے چھابڑی والے کو فروخت کر دئیے
اور سکے ہینگر میں پڑے چھوٹے کپڑوں میں ڈال دئیے
میں آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی
اور اپنی آنکھوں کی جھریاں گننے لگی
آگ پر پرندے سینکنے لگی
تو بھوک میری ایڑی سے ڈر نکلی
نظم
دوسرا پہاڑ
سارا شگفتہ