EN हिंदी
دوری | شیح شیری
duri

نظم

دوری

ضیا جالندھری

;

مری نظر میں ہے اب تک وہ شام وہ محفل
وہ اک ہجوم طرب وہ نشاط نغمہ و نور

شریر لڑکیاں رنگین تتلیاں بے تاب
لبوں پہ گل کدۂ گفتگو کھلائے ہوئے

وہ قہقہے وہ مسرت کی نقرئی جھنکار
اور اس ہجوم میں تم جیسے گلستاں میں بہار

میں اپنے گوشۂ کم تاب میں ہجوم سے دور
اداس نظروں میں مدھم دیے جلائے ہوئے

تم آئیں ہنستی ہوئی آئیں برق کے مانند
مرے قریب سے کتنی قریب سے گزریں

بھڑکتا شعلہ تھا جیسے وہ گوشۂ کم تاب
مرے قریب ہو اور کس قدر قریب ہو آج

نظر نظر میں لیے قہقہوں کی تابانی
فضا میں چاند کی کرنیں نکھر کے بکھری ہیں

مگر کبھی کبھی جس طرح کوئی سایہ سا
تمہاری پلکوں سے کچھ کہہ کے لوٹ جاتا ہے

دبی دبی وہی سرگوشیاں وہی آواز
کہ اس جمال و مسرت کی تہ میں پنہاں ہے

وہ روح تیرہ جسے اک کرن نصیب نہیں
مرے قریب ہو اور کتنی دور ہو مجھ سے

خوشی کا ساتھ تو ہے آنسوؤں کا ساتھ نہیں
ہنسو اور اتنا ہنسو تم برس پڑیں آنکھیں

پھر ان سلگتے ہوئے آنسوؤں میں بہہ جائے
وہ درد اور وہ دوری جو قہقہوں میں ہے