مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں،
تجھے موت آئے گی، مر جائے گی تو،
وہ پہلی شب مہ شب ماہ دونیم بن جائے گی
جس طرح ساز کہنہ کے تار شکستہ کے دونوں سرے
دور افق کے کناروں کے مانند
بس دور ہی دور سے تھرتھراتے ہیں اور پاس آتے نہیں ہیں
نہ وہ راز کی بات ہونٹوں پہ لاتے ہیں
جس نے مغنی کو دور زماں و مکاں سے نکالا تھا،
بخشی تھی خواب ابد سے رہائی!
یہ سچ ہے تو پھر کیوں
کوئی ایسی صورت، کوئی ایسا حیلہ نہ تھا
جس سے ہم آنے والے زمانے کی آہٹ کو سن کر
وہیں اس کی یورش کو سپنوں پہ یوں روک لیتے
کہ ہم تیری منزل نہیں، تیرا ملجا و ماویٰ نہیں ہیں؟
یہ سوچا تھا شاید
کہ خود پہلے اس بعد کے آفرینندہ بن جائیں گے
اب جو اک بحر خمیازہ کش بن گیا ہے!
تو پھر از سر نو مسرت سے، نو رس نئی فاتحانہ مسرت سے
پائیں گے بھولی ہوئی زندگی کو
وہی خود فریبی، وہی اشک شوئی کا ادنیٰ بہانہ!
مگر اب وہی بعد سرگوشیاں کر رہا ہے
کہ تو اپنی منزل کو واپس نہیں جا سکے گا،
نہیں جا سکے گا
مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں،
تجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں،
تجھے موت آئے گی، مر جائے گی تو
یہ عفریت پہلے ہزیمت اٹھائے گا، مٹ جائے گا!
نظم
دوری
ن م راشد