میں تو پیدائش ہی سے اک شہزادی تھی
حسن مرے پیکر میں یوں در آیا تھا
سنگھار کے آئینے میں جب میں جھانکتی تو
خود پر شیدا ہونے لگتی
خواہش میرے دل میں پیدا ہونے لگتی
کہ میری پوجا لوگ کریں
سر لا کے مرے قدموں پر دھریں
لیکن جب میں نے انگڑائی سے حسن پہ اپنے ناز کیا
محسوس کیا کہ دنیا کو ناراض کیا
تھوکا نفرت سے لوگوں نے
اور مجھ کو ناہنجار کہا
بدکار کہا
اک روز انہوں نے بالوں سے میرے افشاں
میری نوچی، نوچے کانوں سے آویزے
بانہوں سے چوڑی اور کڑے
یوں ہاتھوں کانوں سے مجھ کو ننگی کر کے
اک زنداں میں ڈال دیا
قمچی کے نشانوں سے میرا شفاف بدن
نیلا تھا مگر
میں نے نہ جھکایا اپنا سر
کہ میں تو پیدائش ہی سے تھی اک سلطانہ
جب تھام کے میں دیوار اٹھی
تو تب بھی میری چال میں تھا
پہلا سا وقار شاہانہ
بے داغ اک آئینے کے گہرے باطن میں
اپنے روشن ماتھے پہ لکھے
اسرار جو پڑھنا چاہتی میں
ڈر جاتی میں
یہ پوچھتی خود سے ''کون ہے تو؟''
اعماق سے میری روح کے اک آواز ابھر کر یہ کہتی
''ہے تیری دنیا دور کہیں''
اس لمحے کے پھیلاؤ میں میں ڈر کے سمائی رہتی تھی
آنکھوں سے مری اشکوں کی دھارا بہتی تھی
تھا مجھ کو یقیں اک روز مرا شہرہ سن کر
چار آئینہ باندھے آئے گا
میرا پجاری شہزادہ
اور قید سے میری مجھ کو چھڑا لے جائے گا
سورج کی رتھ گاڑی میرے سر پر سے روز گزرتی تھی
آنگن میں اترتے سائے کو میں خوف سے دیکھا کرتی تھی
جب وہ نہ مجھے لینے آیا
تو اک دن میں نے موت سے منت کی کہ آ
اے میری محرم! مجھ میں سما
وہ میرا کہنا مان کے مجھ میں یوں مستانہ در آئی
کہ میرے خون میں چھن چھن گھنگھرو بج اٹھے
میں جھوم اٹھی
اور چاند کے دف پر آنگن میں شب بھر ناچی-
اس صبح انہوں نے میرے بدن کو چوکھٹ پر مردہ پایا
نظم
دور کی شہزادی
آصف رضا