برگ آوارہ صدا آئے ہیں
کوئی آوازۂ پا لائے ہیں
تیرے پیغام رساں ہیں شاید
اور پیمان وفا لائے ہیں
گفتگو نرم ہے لہجہ دھیما
اب کے انداز جدا لائے ہیں
اک ندامت بھی ہے پچھتاوا بھی
خفت جرم و جفا لائے ہیں
آنکھ میں اشک پشیمانی کے
ہونٹ پر حرف دعا لائے ہیں
سارے سامان رفوگری کے
جیب و دامن میں اٹھا لائے ہیں
مرہم زخم کے انبار کے ساتھ
پارۂ خاک شفا لائے ہیں
شاخ زیتون بھی عمامے بھی ہیں
اور عبائیں بھی سلا لائے ہیں
حجر اسود نے چھوا ہے جس کو
ایک ایسی بھی ردا لائے ہیں
کچھ مدینے کی کھجوروں کے طبق
کاسۂ سر پہ سجا لائے ہیں
ایک مشکیزۂ آب زم زم
پشت نازک پہ اٹھا لائے ہیں
اگلے پچھلے سبھی مقتولوں کا
گویا کہ خون بہا لائے ہیں
نظم
دشمنوں کے درمیان صلح
اعجاز گل