EN हिंदी
دنیا کو کہاں تک جانا ہے | شیح شیری
duniya ko kahan tak jaana hai

نظم

دنیا کو کہاں تک جانا ہے

فرحت احساس

;

دنیا کو کہاں تک جانا ہے
یہ کتنا بڑا افسانہ ہے

سب کان لگائے بیٹھے ہیں
اور رات سرکتی جاتی ہے

یہ رات کہاں تک جانی ہے
کچھ اس کا اور و چھور نہیں

یہ رات سمندر ہے جس میں
آواز بہت ہے رونے کی

بس دور تلک تاریکی ہے
کچھ دور ذرا سی روشنیاں

پھر تاریکی پھر روشنیاں
یہ رات بلا کی مایا ہے

جو کچھ کا کچھ کر دیتی ہے
آنکھوں کو جگاتی ہے برسوں

پھر نیند کا دھکا دیتی ہے
پھر خواب دکھاتی ہے برسوں

پھر خوابوں سے چونکاتی ہے
یہ کھیل بھیانک راتوں کا

انسان کی ننھی ذاتوں کا
خوش ہونا اور دہل جانا

پھر آنسو آنسو گل جانا
اس کھیل میں جو بھی ہار گیا

پھر مٹھی سے سنسار گیا
اس کھیل میں پھنسنا ہے پیارے

بس ہاتھ میں جتنی مٹی ہے
اس مٹی سے سنسار بنا

اسے اپنے آنسو کا پانی
اسے اپنے ہجر کی گرمی دے

اسے موسم موسم نرمی دے
اسے اپنے انگ لگا پیارے

اسے اپنے رنگ لگا پیارے
دنیا کو کہاں تک جانا ہے

یہ کتنا بڑا افسانہ ہے
یہ بھید نہ کوئی جان سکا

اس بھید کا چکر بھاری ہے