EN हिंदी
دکھ میلے آکاش کا | شیح شیری
dukh maile aakash ka

نظم

دکھ میلے آکاش کا

وزیر آغا

;

دکھ کے روپ ہزاروں ہیں
ہوا بھی دکھ اور آگ بھی دکھ ہے

میں تیرا تو میرا دکھ ہے
پر یہ میلے اور گہرے آکاش کا دکھ

جو قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے
اس دکھ کا کوئی انت نہیں ہے

جب آکاش کا دل دکھتا ہے
بچے بوڑھے شجر حجر چڑیاں اور کیڑے

سب کے اندر دکھ اگتا ہے
پھر یہ دکھ آنکھوں کے رستے

گالوں پر بہنے لگتا ہے
پھر ٹھوڑی کے پنج ند پر سب دکھوں کے دھارے آ ملتے ہیں

اور شبنم سا مکھ دھرتی کا
خود اک دھارا بن جاتا ہے

سنا یہی ہے
پہلے بھی اک بار دکھی آکاش کی آنکھیں ٹپک پڑی تھیں

پر دھرتی کی آخری ناؤ
زیست کے بکھرے ٹکڑوں کو چھاتی سے لگائے

پانی کی سرکش موجوں سے لڑتی بھڑتی
دور افق تک جا پہنچی تھی

آج مگر وہ ناؤ کون سے دیس گئی ہے
دکھ میلے آکاش کا دکھ

اب چاروں جانب امڈ پڑا ہے
قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے