EN हिंदी
دکھ کی پرچھائیں | شیح شیری
dukh ki parchhain

نظم

دکھ کی پرچھائیں

محمودہ غازیہ

;

بے حسی کی دبیز چادریں
سارے احساس سو گئے

اور میں
اپنی سوچوں سے ہو کے بے پردا

اپنی آنکھوں کی ساری پرچھائیوں کو
دیکھتی ہوں

دھندلی پرچھائیوں کو دیکھتی ہوں
میری تقدیر کی ندی پہ چلی

دکھ کی لہروں پہ
ناؤ آنکھوں کی

کب کنارے پہ جا کے پہنچے گی
دکھ کی لہروں پہ ناؤ آنکھوں کی