وہ دن بھی کیسے دن تھے
جب تیری پلکوں کے سائے
شام کی گہری اداسی بن کے
مری روح میں جادو جگاتے تھے
مری آنکھوں میں نیندیں
تیرے بالوں کی طرح ایسے سبک سے جال بنتی تھیں
کہ جو حلقہ بہ حلقہ خواب اندر خواب
انجانے زمانوں کی گریزاں ساعتوں پر
ابر کی صورت برستے تھے
بدلتے موسموں کی طرح تیرے جسم پر عالم گزرتے تھے
مری جاں تو بہار جاوداں کا ایک موسم تھی
جو میری روح میں آیا
مجھے کیوں یاد آتے ہیں
وہ دن
جواب نہ آئیں گے
نہ آئیں گے تو پھر کیوں یاد آتے ہیں
وہ دن بھی کیسے دن تھے
جب میری بیداریوں کی سرحدیں خوابوں سے ملتی تھیں
وہ باتیں جو کہ نا ممکن ہیں ممکن تھیں
جہاں بس سوچ لینا اور ہو جانا برابر تھا
تجھے کیا یاد ہے وہ دن
کہ جب حرف شکایت کی گرہ سی پڑ گئی تھی
میرے سینے میں
میری آزردگی سے شام کے چہرے پہ زردی تھی
میں تیرے پاس بیٹھا سوچتا تھا
جانے کیا کیا سوچتا تھا
تجھے کیا یاد ہے
تو نے کہا تھا
میں دل کی بات اگر اس سے بھی
کہہ سکتی تو کہہ دیتی
کہ میرے جسم میں دو دل دھڑکتے ہیں
تمہارے واسطے بھی
جو دشمن جاں ہے
نظم
دکھ کی بات
سلیم احمد