EN हिंदी
ڈگڈگی والے | شیح شیری
DugDugi wale

نظم

ڈگڈگی والے

خالد معین

;

تم ہو ڈگڈگی والے
ڈگڈگی بجاتے ہو

اور چاہتے ہو یہ
ڈگڈگی کے بجتے ہی

خلق شہر بے پروا
ناچنے میں لگ جائے

تم ہو ڈگڈگی والے
پر یہ لوگ جن کو تم

ڈگڈگی کے پردے میں
ناچنا سکھاتے ہو

آنکھ بھی تو رکھتے ہیں
سوچ بھی تو سکتے ہیں

تم ہو ڈگڈگی والے
کوئی آنے والا دن

اس طرح بھی آئے گا
ڈگڈگی کے بجتے ہی

خلق شہر بے پروا
غفلتوں سے جاگے گی

اور تمہارے ہاتھوں میں
ڈگڈگی کے بدلے اک

آئنہ تھما دے گی
تم ہو ڈگڈگی والے

ڈگڈگی بجاتے ہو