ان گنت شمسی نظاموں کے بکھیڑوں سے اگر
اک ذرا فرصت ملے تو
میری آنکھوں کی نمیدہ کور پر اشک ندامت کی طرف بھی دیکھ لینا
جھلملاتا اک ستارہ جیسے استغفار کا کوئی وظیفہ
یہ زمیں
تیری مخلوقات کا ادنیٰ سا ذرہ
اور اس ذرے کا میں جزو حقیر
میرا حصہ نبض معنی کی خوش آہنگی میں لفظوں کو نچانا
اپنے ہی ہم شکل جرثوموں کی پھیلائی ہوئی بیماریوں کے
ایکس رے فوٹو مرے الفاظ
غیر دنیا غیر اس کا تجربہ
لفظ غیر آہنگ غیر
پھر بھی میرے کان میں پھونکا کسی نے
جو بھی کچھ میں کر رہا ہوں
جو بھی کچھ میں لکھ رہا ہوں
وہ میری تخلیق ہے
میں بھی اپنے آپ میں تخلیق کار
اور یہ شیطان پھونک
میرے سر میں چڑھ گئی
میں نے اپنی روح کو
پانیوں پر چھ دنوں تک بے تکاں جنبش میں پایا
لفظ کن کا ورد کر کے آنکھ جب کھولی تو دیکھا
یہ زمیں یہ آسماں
روشنی پانی فضا خشکی درخت
چاند سورج کہکشاں حیوان جن انساں ملک
ایک کورس بن گئے ہیں
اور مجھ پر ہنس رہے ہیں
میرے آگے پیچھے شر ما خلق ہے
اے طلوع صبح کے رب
اک ذرا فرصت ملے تو
میری اس گم سم انا کو
اپنے سورج کی ذرا سی روشنی اور آنچ دے دینا
اور کہہ دینا مری مخلوق جا میری نشانی بن
مجھ سے اپنی روح کے
یا روح سے میرے گزرنے کی کہانی بن
نظم
دعا
عمیق حنفی