EN हिंदी
ڈرائنگ روم | شیح شیری
drawing-room

نظم

ڈرائنگ روم

سلام ؔمچھلی شہری

;

یہ سینری ہے یہ تاج محل یہ کرشن ہیں اور یہ رادھا ہیں
یہ کوچ ہے یہ پائپ ہے مرا یہ ناول ہے یہ رسالہ ہے

یہ ریڈیو ہے یہ قمقمے ہیں یہ میز ہے یہ گلدستہ ہے
یہ گاندھیؔ ہیں ٹیگورؔ ہیں یہ یہ شاہنشہ یہ ملکہ ہیں

ہر چیز کی بابت پوچھتی ہے جانے کتنی معصوم ہے یہ
ہاں اس پر رات کو سونے سے میٹھی میٹھی نیند آتی ہے

ہاں اس کے دبانے سے بجلی کی روشنی گل ہو جاتی ہے
سمجھی کہ نہیں یہ کمرہ ہے ہاں میرا ڈرائنگ روم ہے یہ

اتنی جلدی مزدور عورت آخر یہ گلے میں بانہیں کیوں
لے دیر ہوئی اب بھاگ بھی جا بس اتنی محبت کافی ہے

اس ملک کے بھوکے پیاسوں کو پیسے ہی کی حاجت کافی ہے
اتنی ہنس مکھ خاموشی اتنی مانوس نگاہیں کیوں

میں سوچ رہا ہوں کچھ بیٹھا پائپ کے دھویں کے بادل میں
میں چھپ سا گیا ہوں اک نازک تخئیل کے میلے آنچل میں