تیرا جسم لہو ہے میرا
جس کی بوندیں
گلدستے کے پھول ہیں
دیواروں پر تصویریں ہیں
کشتی کشتی ڈول رہی ہے
لیپ کے سائے
یہ سب میری زنجیریں ہیں
جن کو میرے ذہن کا آہن کاٹ رہا ہے
کب تک میں زنداں میں بیٹھا
آنے والے کل کو مشت خاک سمجھ کر
ذرے ذرے کو بھینچوں گا
درد کی آواز سے کب تک
گیت سنوں گا
انگاروں پر لوٹ رہا ہوں
کب تک چوب منقش تھامے
میں سوچوں گا
وہ یہ شاخ ہے جس میں اک دن پھول کھلیں گے
نظم
ڈرائنگ روم
احمد ظفر