موج صہبا میں تمنا کے سفینے کھو کر
نغمہ و رقص کی محفل سے جو گھبرا کے اٹھا
ایک ہنستی ہوئی گڑیا نے اشارے سے کہا
تم جو چاہو تو میں شب بھر کی رفاقت بخشوں
جنبش ابرو نے الفاظ کی زحمت بھی نہ دی
نیم وا آنکھوں میں اک دعوت خاموش لیے
یوں سمٹ کر مری آغوش میں آئی جیسے
بھری دنیا میں بس اک گوشۂ راحت تھا یہی
ہم بھی ویران گزر گاہوں پہ چلتے چلتے
گھر تک آئے تو کوئی رنگ تکلف ہی نہ تھا
دو بدن ملتے ہی یوں ہمدم دیرینہ بنے
تندہیٔ شوق میں دوری کا ہر احساس مٹا
صبح کے ساتھ کھلی آنکھ تو احساس ہوا
میرے سینے میں کوئی چیز تھی جو ٹوٹ گئی
دیر سے دیکھ رہی تھی تری تصویر مجھے
تیرے عارض پہ تھی بہتے ہوئے اشکوں کی نمی
تیری خاموش نگاہوں میں کوئی شکوہ نہ تھا
دیکھتے دیکھتے ویرانئ دل اور بڑھی
تیری تصویر کو سینے سے لگا کر پوچھا
کس طرب زار میں آسودہ ہے اے راحت زیست
مجھے ان آگ کے شالوں میں کہاں چھوڑ گئی
نظم
دوزخ
محمود ایاز