تمہارا ہاتھ بڑھا ہے جو دوستی کے لیے
مرے لیے ہے وہ اک یار غم گسار کا ہاتھ
وہ ہاتھ شاخ گل گلشن تمنا ہے
مہک رہا ہے مرے ہاتھ میں بہار کا ہاتھ
خدا کرے کہ سلامت رہیں یہ ہاتھ اپنے
عطا ہوئے ہیں جو زلفیں سنوارنے کے لیے
زمیں سے نقش مٹانے کو ظلم و نفرت کا
فلک سے چاند ستارے اتارنے کے لیے
زمین پاک ہمارے جگر کا ٹکڑا ہے
ہمیں عزیز ہے دہلی و لکھنؤ کی طرح
تمہارے لہجے میں میری نوا کا لہجہ ہے
تمہارا دل ہے حسیں میری آرزو کی طرح
کریں یہ عہد کہ اوزار جنگ جتنے ہیں
انہیں مٹانا ہے اور خاک میں ملانا ہے
کریں یہ عہد کہ ارباب جنگ ہیں جتنے
انہیں شرافت و انسانیت سکھانا ہے
جئیں تمام حسینان خیبر و لاہور
جئیں تمام جوانان جنت کشمیر
ہو لب پہ نغمۂ مہر و فا کی تابانی
کتاب دل پہ فقط حرف عشق ہو تحریر
تم آؤ گلشن لاہور سے چمن بردوش
ہم آئیں صبح بنارس کی روشنی لے کر
ہمالیہ کی ہواؤں کی تازگی لے کر
پھر اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے
نظم
دوستی کا ہاتھ
علی سردار جعفری