چلو اب سمیٹو کھلونے
کتابیں نکالو
یہ کیا ڈھیر تم نے لگایا ہوا ہے پھٹے کاغذوں کا
ادھیڑی ہوئی ڈولفن ماں نے دیکھی تو کوٹے گی
آنسو بہاتے ہوئے تم
مرے پاس آؤ گے
لیکن میں سہمی ہوئی
ماں کی انگارہ آنکھوں سے آنکھیں چراؤں گی
مٹی کریدوں گی پاؤں کے ناخن سے
ہاتھوں کے ناخن کترتے ہوئے اپنے دانتوں سے
میں نے کئی بار دیکھا ہے تم
اس کی جھولی میں چھپ کر مرا منہ چڑھاتے ہو
چوری کیے اس کے پیسوں کا امچور کھاتے ہو
پانی ٹپکتا ہے ہونٹوں سے میرے
تو ماں ڈانتی ہے
دوپٹہ اڑاتی ہے
جانے وہ کیا بڑبڑاتی ہے
کلموہی کہتی ہے کس کو
مجھے اس نے اب تک بتایا نہیں ہے
کہ کھٹی زبانوں پہ شیرینی رکھو تو
ابکائی مچھلی کی مانند باہر لپکتی ہے کیوں
خیر چھوڑو مجھے
تم پھٹی ڈولفن سنبھالو!
نظم
ڈولفن
علی محمد فرشی