EN हिंदी
ڈاج محل | شیح شیری
dodge-mahal

نظم

ڈاج محل

سرفراز شاہد

;

ڈاج کے نام سے جاناں تجھے الفت ہی سہی
ڈاج ہوٹل سے تجھے خاص عقیدت ہی سہی

اس کی چائے سے چکن سوپ سے رغبت ہی سہی
ڈاج کرنا بھی ازل سے تری عادت ہی سہی

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے
قیس و لیلیٰ بھی تو کرتے تھے محبت لیکن

عشق بازی کے لئے دشت کو اپناتے تھے
ہم ہی احمق ہیں جو ہوٹل میں چلے آتے ہیں

وہ سمجھ دار تھے جنگل کو نکل جاتے تھے
تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

کاش اس مرمریں ہوٹل کے بڑے مطبخ میں
تو نے پکتے ہوئے کھانوں کو تو دیکھا ہوتا

وہ جو مردار کے قیمے سے بھرے جاتے ہیں
کاش ان روغنی نانوں کو تو دیکھا ہوتا

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے
جاناں! روزانہ ترے لنچ کا بل کیسے دوں

میں کوئی سیٹھ نہیں کوئی سمگلر بھی نہیں
مجھ کو ہوتی نہیں اوپر کی کمائی ہرگز

میں کسی دفتر مخصوص کا افسر بھی نہیں
تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

گھاگ بیرے نے دکھا کر بڑا مہنگا مینو
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

عشق ہے مجھ سے تو ''کافی'' ہی کو کافی سمجھو
میں منگا سکتا نہیں مرغ مسلم کا طباق

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے