EN हिंदी
دو تہوں والی سرگوشی | شیح شیری
do tahon wali sargoshi

نظم

دو تہوں والی سرگوشی

فرخ یار

;

سماعتیں پھول چن رہی ہیں
کہ خاک میں لو کا استعارہ

ہراس کی منزلوں سے ہو کر
ہمارے سینوں میں موجزن ہو

ہماری آنکھیں
ہمارے حلقے

نہ جانے کس دن سے منتظر ہیں
کہ وہ بھی دیکھیں کوئی ستارہ

کوئی ستارہ
جو نیلگوں پانیوں کے اندر

نشیب کو روشنی سے بھر دے
سماعتیں پھول چن رہی ہیں

کہ حبس ٹوٹے
ہوا چلے اور ہزار راتیں

بچھی ہوئی ساعتوں کو اپنا گواہ لائیں