سماعتیں پھول چن رہی ہیں
کہ خاک میں لو کا استعارہ
ہراس کی منزلوں سے ہو کر
ہمارے سینوں میں موجزن ہو
ہماری آنکھیں
ہمارے حلقے
نہ جانے کس دن سے منتظر ہیں
کہ وہ بھی دیکھیں کوئی ستارہ
کوئی ستارہ
جو نیلگوں پانیوں کے اندر
نشیب کو روشنی سے بھر دے
سماعتیں پھول چن رہی ہیں
کہ حبس ٹوٹے
ہوا چلے اور ہزار راتیں
بچھی ہوئی ساعتوں کو اپنا گواہ لائیں
نظم
دو تہوں والی سرگوشی
فرخ یار