EN हिंदी
دو بوند پانی | شیح شیری
do bund pani

نظم

دو بوند پانی

نسرین انجم سیٹھی

;

کیا میری آنکھوں میں سناٹا ہے
نہیں برف باری ہو رہی ہے

لوگ مجھ سے خوف کھانے لگے ہیں جیسے مردے سے
کیا مجھ سے کافور کی بو آتی ہے

نہیں تو میری سانسوں میں ساون کا عبث اور املتاس کی گرمی ہے
اور سانسو اور آنکھوں کے درمیان

فاصلہ زیادہ نہیں
پھر بھی بہت ہے

اس لیے کہ ختم ہو جائے تو اسٹرگل ہی ختم ہو جائے
زندگی کو جاری تو رکھنا ہے انتقام

رات بہت پڑی ہے الاؤ جلتا رہے تو اچھا ہے
جانور دھوئیں سے خوف کھاتے ہیں

اور انسان راکھ سے
آگ میرا سہاگ ہے

عاشقوں کے دلوں پر ہاں نہیں ہوتے کہ مانگ نکال کر آگ بھر دی جائے
اس لیے ان کے دل پھٹ جاتے ہیں

آگ اندر اتر جاتی ہے
اوپر برف گرتی رہتی ہے

کپاس کے پھولوں پر محرم کا موسم ہے یا حسینا وا حسینا
کپاس دھنکی ہوئی آسماں کی چھاتی سے برستی ہے

ٹھنڈی ٹھار پلکیں بھی نہیں جھپکتیں
پلکوں کی جھالریں سفید ہو جاتی ہیں برف بن کر ان میں اٹی رہتی ہے

اور اندر بر‌ آمدے خالی ہو جاتے ہیں سیزن مگ جاتا ہے
لڑکی ناخن کاٹتی ہے تو چاند اس کی ہتھیلی پر اتر آتا ہے

تمہارا دولہا بہت خوبصورت ہوگا
دونوں ہتھیلیاں جوڑو تو بھلا

چاند تو پورا ہو گیا مگر روشنی ہاتھوں میں بند نہیں ہو سکی
پھیل گئی ہتھیلیوں میں چھید تھے

سائنٹفک سی بات ہے
آگ امیر سہاگ سب لڑکیوں کے دلوں میں نہیں جلتی اس لیے کہ سب

لڑکیاں عاشق نہیں ہوتیں
محبوبائیں ہوتی ہیں

اور ان کی آنکھوں کے بر‌ آمدے خوان سے سجے رہتے ہیں
برف باری ان کے لیے سیزن ہے میرے لیے موسم اپنے مشرق معنوں کے ساتھ

سورج طلوع ہوتا ہے
برف باری اور بلندیوں پر چڑھ گئی

جانور میدانوں میں نکل آئے پلکیں خانہ بدوش ہو گئیں
اپنا ساون اٹھائے اٹھائے

گھاٹ گھاٹ دو بند پانی اسلام آباد میں نہ راجستھان میں
برف کی نہر نکالی جائے گی

اور محبوبائیں آگ کے بستر پر لیٹ کر میٹھی برف کے گولے چوسیں گی
ابھی ان کی عمر ہی کیا ہے

ابھی تو یہ لوگ اسمال چکنس آف اسنیک پالتی ہیں
ماتھے پر کنڈل ڈالتی ہیں

چاہے جانے کے لیے
لمبی سنہری کار اور

دو بوند پانی
نہ برفستان میں نہ آتش دان میں

لڑکی کی جنس تبدیل ہو رہی ہے
لڑکی کا دولہا دو بوند پانی کی خاطر ہوا ہو گیا

لڑکی اسکیر کرو ہو گئی شاید دولہا کے بھائیوں کے کھیتوں میں
اچھا ہے در بدری ہونے سے تو بچ رہی

بچ رہی تو اسے بچانے
اس کا دولہا ضرور آئے گا